تحریر: سید محمد حیدر اصفہانی
حوزہ نیوز ایجنسی। حالیہ کچھ سالوں سے ہندوستان میں جس جگہ بھی انتخابات ہوتے ہیں ان میں مسلمانوں کا مرکزی کردار ہوتا ہے لیکن اس سے آپ یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ مسلمان سیاسی طور پر انتے مضبوط اور باشعور ہو گئے ہیں کہ وہ انتخابات کے نتائج پر اثر ڈال سکتے ہیں بالخصوص اِس دور میں کہ جب مسلمانوں کے ووٹ کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے اور اکثریتی طبقے کے بل بوتے پر الیکشن لڑا جا رہا ہے۔ مرکزی کردار سے میرا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر الیکشن میں بلی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے اور بیچارہ مسلمان کسی نہ کسی سیاسی قصائی کے ہاتھ ذبح ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کے تمام مسائل ایک طرف اور مسلمانوں کے مسائل ایک طرف۔ جہاں دیکھو مسلمانوں کو فٹبال کی طرح ہر پارٹی گول کرنے کے چکر میں ہے، ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے ذریعہ اپنی بازی جیت لے اور اس کے ذریعہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائے اور اس وقت ہندوستان کی ہر سیاسی جماعت اسی کوشش میں نظر آتی ہے فرق اتنا ہے کہ ہرٹیم کا ڈریس اور رنگ مختلف ہے لیکن سب کا گول اور مقصد ایک ہی ہے۔ موجودہ ہندوستان میں مسلمان اپنی ترقی کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنی بقا کے لئے کوشاں ہے اور جس جگہ بھی ان کو سرابِ بقا دکھائی پڑتا ہے بیچارے اسی طرف دوڈ لگا دیتے ہیں۔
سیاسی اور سماجی اعتبار سے مسلمانوں کی کیفیت مذکورہ سطور سے مختلف نہیں ہے لیکن خود مسلمانوں کے داخلی مسائل اس سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس وقت پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13 کروڑ سے زیادہ ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق 30 کروڑ سے کم نہیں ہے اور مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں کی دوسری اکثریت ہیں کہ جو دنیا کے اکثر اسلامی ممالک میں ان کی کل آبادی سے زیادہ ہیں ، بیچارے ہندوستانی مسلمان تعداد کے اعتبار سے دنیا میں قابل ذکر ہیں لیکن ہندوستان میں دوسری اکثریث ہونے کے باوجود ’’لم یکن شیئامذکورا‘‘ کے مصداق ہیں۔ آج کی تاریخ میں ہندوستانی مسلمان اپنے وجود کو بچانے کی جد وجہد کرتا ہوا نظر آ رہا ہے اور ان کی کیفیت سٹرک پر پڑے ہوئے ان پتھروں کے مانند ہے جو گزرنے والے افراد کی ٹھوکروں میں کبھی اِدھر تو کھبی اُدھر ڈھلکتا رہتا ہے۔
حالیہ چند سالوں سے کچھ طاقتیں اسلام اور مسلمان ہراسی کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی کر رہی ہیں حالانکہ خود مسلمان آپس میں فتنہ و فساد برپا کرنے میں پیچھے نہیں ہیں لیکن اب مخالف طاقتیں بھی ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اپنے مقاصد کو پیادہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ کچھ حد تک کامیاب بھی نظر آ رہی ہیں ۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت جتنے نازک دور سے گزر رہا ہے میری دانست میں ایسے حالات کبھی نہیں رہے حتیٰ تقسیم ہند کے وقت بھی ایسے حالات نہیں تھے۔ چونکہ مسلمانوں کے اچھے یا برے لیڈر تو موجود تھے جو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی ترجمانی کرتے تھے اور مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتے تھے لیکن آج ہندوستان میں مسلمانوں کی کشتی ناخدا کے بغیر موج ہائے طلاطم میں گرفتار ہے اس وقت بیجارے ہندوستانی مسلمان ’’ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں‘‘۔ دنیا کی ہر باطل طاقت آج اسلام اور مسلمانوں کو اپنا ہدف بنانے کی پوری کوشش میں ہے لہذا جہاں دیکھو مسلمان غیروں سے پٹ رہے ہیں اور جہاں کوئی دوسرا نہیں ہے وہاں خود ایک دوسرے کو پیٹ رہے ہیں اور ان بربادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔لہذا جس جگہ دیکھو ’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘۔
میرے خیال میں ہندوستانی مسلمانوں کے تناظر میں آج کل یہ بات سو فیصد درست ثابت ہو رہی ہے اس لئے کہ جب سےبھگوا دھاری جماعت برسر اقتدار آئی ہے مسلمانوں کی حالت ہر اعتبار سےابتر ہوتی جا رہی چاہے وہ سیاست ہو، مذہبی آزادی ہو، اقتصاد ہو، تعلیم ہو یا پھر امنیت کا مسئلہ ہو، ہرطرح سے ہندوستانی مسلمان مخالفین کی زد پر ہیں البتہ ہم پہلے بھی اچھی حالت میں نہیں تھے۔
جب تک تمام مسلمان امت واحدہ میں تبدیل نہیں ہونگے یہی حالات برقرار رہیں گے چونکہ مدمقابل مسلمانوں کی دشمنی میں متحد ہے اور مسلمان فرقوں کے جال سے باہر نہیں نکل پارہا ہے ۔ دور حاضر کے مسلمان قرآن و سنت کو کم ، اپنے مسالک کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن پکار پکار کے کہہ رہا ہے ’’واعتصموا بحبل اللہ ولا تفرقوا ‘‘ اللہ کی رسی کو پکڑے رہنا اور گروہ گروہ نہ ہونا۔ ’’ولا تکونوا کالذین تفرقوا ‘‘ اور اے مسلمانوں دیکھو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو متفرق ہوگئے۔ اس کے باوجود تفرقہ اور پراکندگی ہی مسلمانوں کا شیوہ ہے اور اسی سبب استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ جن مسلمانوں نے اس دنیا میں سب کچھ اسلام کی برکت سے حاصل کیا تھا آج وہی غیروں کے سامنے زنبیل لے کر کھڑے ہوئے ہیں ۔ نباض امت مسلمہ علامہ اقبال ؔنے اس قوم کی بے راہ روی پر کہا تھا:
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
اگر مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی میراث پانا ہے تو میدان عمل میں ڈٹ جانا ہوگا۔ صرف تقریروں اور تحریروں سے بھی کچھ نہیں ہوگا جب تک ہم عملا قدم نہ اٹھائیں۔ آج ہمارے پاس تعلیمی مراکز کی شدید کمی ہے البتہ الحمد للہ ہمارے پاس خستہ حال ہی سہی لیکن کچھ دینی مراکز اور مدارس تو موجود ہیں لیکن اس میں سلیبس وہی ہے جو سوسال پہلے تھا کہ جس میں ایک اچھا نحوی، محدث یا قاری تو بن سکتا ہے کہ لیکن اس میں دنیاوی تقاضوں کے مطابق تعلیم کا فقدان نظر آتا ہے اگرچہ دینی تعلیم کو اہمیت حاصل ہے لیکن جب تک جدید اور عصری تعلیم نہیں ہوگی اور ٹیکنولوژی کے میدان میں نہیں اتریں گے اس وقت تک یہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر مدرسے سے نکلا ہوا طالب علم ایک عالم دین کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر، انجینئر یا کسی جدید فن کا ماہر بن کر نکلتا ہے تو وہ کتنا اچھا منظر ہوگا اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے۔ اس سے دین فروشی کا خطرہ بھی ختم ہوجائےگا اور بے لاگ ہوکر تبلیغ دین بھی کرےگا چونکہ اس کی معیشت تبلیغ دین پر منحصر نہیں ہوگی۔
مجھے معلوم ہے کہ میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں لیکن کہتے رہنے سے عمل کی امید پیدا ہوتی ہے۔ آج ہمارے بچے مدرسے میں اس لئے نہیں جاتے کیوں کہ انہیں عصری تعلیم سے فرصت ہی نہیں ملتی چونکہ ہمارے پاس معیاری اسکول اور کالج نہیں ہیں جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ہو لہذا ہماری قوم کے نوجوان دوسروں کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں جانے پر مجبور ہیں اور انہیں کی ثقافت اور کلچر کو سیکھنا پڑتا ہے اس کے علاوہ اب ہمارے گھروں میں بھی مغربی ماحول کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے جس کی وجہ سے بچوں کو نہ گھر میں اور نہ باہر کہیں بھی اپنا کلچر نہیں ملتا جس کے نتیجے میں بچے شائد انجینئر اور ڈاکٹر تو بن جائیں لیکن نہ وہ مہذب انسان بن سکتے ہیں اور نہ اچھے مسلمان۔
غیروں کے تعلیمی مراکز میں بچے وہ سب سیکھتے ہیں جس کا تعلیم سے کوئی ربط نہیں ہوتا اور انہیں فارورڈ اور ترقی یافتہ ہونے کے نام پر نہ جانے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا جب تک کیثر تعداد میں معیاری تعلیمی ادارے وجود میں نہیں آئیں گے ہم دوسروں کی ثقافت اور نام نہاد آزادی کے بہانے اپنا سب کچھ قربان کر تے رہیں گے۔
تعلیم کے علاوہ طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی وافر مقدار میں ہسپتال تعمیر کیا جانا چاہیے کیوں کہ جو قوم صحت مند نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتی ایسے طبی مراکز میں قوم کے ڈاکٹروں اور نرسوں کو جگہ دی جائے ۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے مسائل ہیں جنہیں خود حل کرنا ہوگا۔ نہ کوئی حکومت کرے گی اور نہ اور نہ کوئی پارٹی ۔ مسلمانوں کواپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے یک جہتی کے ساتھ اپنے حقوق کو چھیننا پڑے گا کیوں کہ مانگنے سے کوئی نہیں دیگا ۔ اللہ نے تمام انسانوں کو عقل کی دولت سے نوازا ہے لیکن مسلمانوں کے پاس عقل کاملہ کے حاملین بھی موجود ہیں جن کے فرمودات کی روشنی میں ہم پوری دنیا کو مسخر کر سکتے ہیں ۔بقول علامہ اقبالؔ
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔